۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
مولانا سید حیدر عباس رضوی

حوزہ/ المومل کلچرل فاؤنڈیشن کے زیر انتظام سالانہ دینی کلاسیز کا سترہواں دور مکمل ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ ماہ صیام میں مذہبی تعلیمات اور دینی اعتقادات کی تقویت کے لئے المومل کلچرل فاؤنڈیشن دین اور زندگی کے عنوان سے عام مومنین کے لئے دینی کلاسیز کا انتظام کرتا رہا ہے۔اس برس دین اور زندگی کے بینر تلے ہونے والے دروس کا سترہواں دور تھا جس میں مفید اور دلچسپ نیز کارآمد موضوعات پر شہر کے مختلف علماء کرام نے آیات و روایات نیز سیرت معصومین علیہم السلام کی روشنی میں گفتگو کی۔پہلی ماہ مبارک سے یہ کلاس ہر رات بعد مغرب ٹھیک 7:50 پر شروع ہوتا اور ٹھیک 8:35 پرختم ہو جاتا۔درج ذیل علماء کرام نے بالترتیب ان کلاسیز میں لکچر دئیے۔

مولانا موسی رضا یوسفی

مولانا سید اصطفی رضا

مولانا سید محمد حسنین باقری

مولانا سید سعید الحسن نقوی

مولانا سید حیدر عباس رضوی

آخر کے تین دنوں میں مولانا سید حیدر عباس رضوی نے رسول اعظم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی وصیت جیسے اہم موضوع پر مفصل گفتگو کے ضمن وصیت کی اہمیت آیات و روایات کی روشنی میں بیان کی۔مولانا نے بیان کیا کہ ہماری مجالس میں معمولا ان موضوعات کا تذکرہ نہیں ہوتا جبکہ یہ اتنا اہم عنوان ہے کہ حدیث رسول کی روشنی میں بغیر وصیت کئے مرنے والے کی موت جاہلیت کی موت ہے۔یا پھر رسول اکرم کا ہی فرمان ہے کہ اگر کوئی شخص 70 سال عبادت کرے لیکن وصیت میں انصاف نہ کرے تو وہ اہل دوزخ ہے۔مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اضافہ کیا کہ قرآن مجید میں 8 مرتبہ کلمہ وصیت آیا ہے جبکہ وصی اور اس کے مشتقات پورے قرآن میں 32 مرتبہ ذکر ہوئے ہیں۔

اگر حق اللہ یا حق الناس گردن پر ہو تو ایسی صورت میں وصیت کرنا واجب ہے۔البتہ تاریخ بتاتی ہے کہ نبی اکرم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو اپنا خرمہ بڑی مقدار میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا تھا اور آنحضرت نے اس کی خواہش کے مطابق تمام کا تمام خرمہ راہ خدا میں دے دیا پھر ایک خراب خرمہ اس میں کا نظر آیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ اپنی زندگی میں اسی ایک خرمہ کو خود راہ خدا میں دیتا تو ان تمام خرموں کے انفاق سے بہتر تھا جو میں نے اس کی موت کے بعد لوگوں میں تقسیم کیا۔

مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اپنے دروس کے دوران نبی اعظم اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی وصیتوں کا مختصر تذکرہ کیا۔تمام معصومین نے مشترکہ طور پر اپنی وصیت کے ضمن میں جس بات کی سب سے زیادہ تاکید کی ہے وہ ہے تقوی،طمع و تکبر سے دوری،شہوت سے فرار،برادر ایمانی کا خاص خیال،پڑوسی کا پاس و لحاظ،یتیم نوازی،سچ بولنے کی تاکید،غفلت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش وغیرہ۔

ان دروس کا آغاز تلاوت قاری کاظم سلمہ اور روح اللہ سلمہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔مومنین کے علاوہ علماء کرام بھی ان دروس میں شرکت کرتے رہے۔

ہر روز درس میں شرکت کرنے والے مومنین میں سے کسی ایک خوش نصیب کو قرعہ کے ذریعہ کربلا کا تبرک دیا گیا۔اسی طرح المومل ہال میں خواتین کے لئے کلاسیز کا اہتمام ہوا جس میں عالمہ کنیز مہدی،عالمہ بتول فاطمہ زیدی اور عالمہ امانت فاطمہ رضوی نے درس دئیے۔

المومل کلچرل فاؤنڈیشن کے مسئول مولانا احتشام الحسن نے علماء،معلمات نیز شرکت کرنے والے مومنین و مومنات کا شکریہ ادا کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .